فلسفہ قربانی

محمد سہیل مصباحی

سکونت : راجہ بازار کھڈا ضلع کشی نگر
اللہ رب العزت کا بے پناہ فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں امت محمدیہﷺ میں پیدا فرمایا اور ہم پر بہت سارے احکام مقرر فرمائے (فرائض و واجبات وغیرہ) انہی احکام میں سے ایک حکم قربانی کا بھی ہے جو نہایت سخاوت و سعادت کا باعث اور رفعت و عظمت کا سبب اور زندہ قوموں کا شعار ہے قربانی قربانی دینے والوں کو پستی کی بجائے بلندی عطا کر دیتی ہے اور دور فرقت میں جلنے والوں کو پیغام وصل سناتی ہے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ جو قوم مرنا اور قربان ہونا سیکھ لیتی ہے زندگی اسی قوم کو ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ قربانی کا تصور ہر قوم اور ہر دور میں مختلف انداز سے رہا ہے اسی طرح قربانی کا تصور اسلام میں بھی تمام ادیان و اقوام سے الگ رہا ہے اور اسلام نے اسے کئی موقع بھی فراہم کیے ہیں ان میں سے ایک موقع ١٠ ذی الحجہ کا مقدس دن بھی ہے جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند ارجمند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حکم الہی کے خاطر قربان کر دیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بھی اطاعت و فرمانبرداری اور جانثاری و رضامندی کا ثبوت دیا اور اپنی گردن اللہ رب العزت کے حضور جھکا دی اور قربانی کے تصور کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا اور اللہ رب العزت نے دونوں کی فرمانبرداری کو شرف قبولیت بخشا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو سلامتی کا پروانہ عطا کیا اور ان کی جگہ جنت سے ایک دنبہ بھیجا اور اسے ذبح عظیم کا لقب عطا کیا
چنانچہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا “وفديناه بذبح عظيم”(اور ہم نے اسماعیل کے بدلے میں ایک بڑا ذبیحہ دے دیا)
یعنی اسماعیل علیہ السلام کے بدلے میں ایک عظیم قربانی عطا ہوئی جس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح فرمایا
علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس ذبیحہ کی شان بلند ہونے کی وجہ سے اسے بڑا فرمایا گیا ہے کیونکہ یہ اس نبی علیہ السلام کا فدیہ بنا جن کی نسل سے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں (بیضاوی, الصافات, تحت الایة:٢٢/٥,١٠٧)
اور اسی طرح احادیث طیبہ میں بھی قربانی کی بہت زیادہ فضیلت اور اس کا ثواب ہے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی چیز اللہ کو پسند نہیں ان دنوں میں یہ نیک کام سب نیکیوں سے بڑھ کر ہے اور قربانی کرتے وقت خون کا جو قطرہ زمین پر گرتا ہے تو زمین پر گرنے سے پہلے ہی وہ اللہ رب العزت کی یہاں قبول ہو جاتا ہے (مشکوة)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے “قربانی کے جانور کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں ہر ہر بال کے بدلے ایک نیکی لکھی جاتی ہے ”
عید کے موقع پر جانور کو ذبح کرنا یہ ایک ظاہری عمل ہے اور اس کا ایک باطنی عمل بھی ہے اور وہ “تقوی” ہے یعنی قربانی کا مطلب جانور ذبح کرنا اور اس کا گوشت کھا لینا اور خون بہا دینا ہی نہیں بلکہ جس خلوص و نیت کے ساتھ وہ جانور ذبح کیا جائے اس خلوص و نیت اور اس تقوے کو قربانی کہا جاتا ہے جیسا کہ اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ” لن ينال الله لحومها ولا دمائها ولكن يناله التقوى ” (اللہ کے یہاں ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کے خون البتہ تمہاری طرف سے پرہیزگاری اس کی بارگاہ تک پہنچتی ہے) (ترجمہ کنز العرفان)
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ ہر امت ہر طبقے میں تصور قربانی موجود رہا ہے اور انہوں نے اپنے مذہبی عقائد و نظریات کے لحاظ سے قربانی کیا تاریخ کی اولین قربانی حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے کی ہے جسے قران عظیم نے یوں بیان کیا
” واتل عليهم نبا ابني ادم بالحق اذ قربا قربانا فتقبل من احدهما ولم يتقبل من الاخر قال لا اقتلنك قال انما يتقبل الله من المتقين لئن بسطت الي يدك لتقتلني مآ انا بباسط يدي اليك لاقتلك انى اخاف الله رب العالمين اني اريد ان تبوء باثمي واثمك فتكون من اصحاب النار وذلك جزء الظالمين (المآئدہ,٢٩,٢٨,٢٧)
اور ( اے حبیب!) انہیں آدم کے دو بیٹوں کی سچی خبر پڑھ کر سناؤ جب دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی طرف سے قبول کر لی گئی اور دوسرے کی طرف سے قبول نہ کی گئی تو (وہ دوسرا) بولا: میں ضرور تجھے قتل کر دوں گا (پہلے نے) کہا! اللہ صرف ڈرنے والوں سے قبول فرماتا ہے بے شک اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ تیری طرف نہیں بڑھاؤں گا میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو سارے جہاں کا مالک ہے میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرا اور تیرا گناہ دونوں تیرے اوپر ہی پڑ جائیں تو تو دوزخی ہو جائے اور ظلم کرنے والوں کی یہی سزا ہے (ترجمہ کنز العرفان)
اس کے علاوہ تاریخ عالم میں مختلف قربانیوں کا ذکر ہے جیسے قوم نوح کی قربانی, یونانیوں, مجوسیوں, اور ہندوؤں کی قربانی مگر سب پر فائق امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی ہے جس کا پس منظر یہ ہے
اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے “رب هب لي من الصالحين فبشرناه بغلام حليم فلما بلغ معه السعي قال يبني اني ارى في المنام اني اذبحك فانظر ماذا ترى قال يا ابت افعل ما تؤمر ستجدني ان شآء الله من الصابرين فلمآ اسلما وتله للجبين” الآية (الصفت ١٠٠ تا ١١١)
(الٰہی مجھے لائق اولاد دے تو ہم نے اسے خوشخبری سنائی ایک عقل مند لڑکے کی پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہو گیا کہا میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا کہ میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے کہا اے میرے باپ کیجیے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے تو جب ان دونوں نے ہمارے حکم پر گردن رکھی اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا اس وقت کا حال نہ پوچھ اور ہم نے اسے ندا فرمائی کہ اے ابراہیم بے شک تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو بے شک یہ روشن جانچ تھی اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے صدقہ میں دے کر اسے بچا لیا اور ہم نے پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھی سلام ہو ابراہیم پر ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو بے شک وہ ہمارے اعلی درجے کے کامل الایمان بندوں میں ہیں (کنز الایمان)
اب اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ فرزند حضرت اسماعیل ہیں یا حضرت اسحاق علیه‍ما السلام ہیں لیکن دلائل کی قوت ا یہی بتاتی ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی ہیں اور جنت سے بکری بھیجی گئی تھی فدیہ میں جس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح فرمایا (خزائن العرفان)
اور واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ارض مقدسہ کے مقام پر پہنچے تو اس وقت آپ کے پاس اولاد نہیں تھی تو آپ نے دعا کی اے میرے رب مجھے نیک اولاد عطا فرما جو کہ دین حق کی دعوت دینے میں اور تیری عبادت کرنے پر میری مددگار ہو اور اس سے مجھے پردیس میں انسیت حاصل ہو تو اللہ رب العزت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فرزند عطا فرمایا وہ پلتے بڑھتے جب اس عمر تک پہنچ گئے جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حاجت اور ضروریات میں ان کے ساتھ کام کرنے کے قابل ہو گئے تو ان سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں اور انبیاء کرام علیھم السلام کے خواب حق ہوتے ہیں اور ان کے افعال اللہ کے حکم سے ہوا کرتے ہیں اب تو دیکھ لے تیری کیا رائے ہے ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ اس لیے کہا تھا تاکہ انہیں ذبح ہونے سے وحشت نہ ہو اور اللہ تعالی کے حکم کی اطاعت کے لیے رغبت کے ساتھ تیار ہوں جائیں چنانچہ اس فرزند ارجمند نے اللہ رب العزت کی رضا پر فدا ہونے کا کمال شوق سے اظہار کیا اور فرمایا اے میرے باپ آپ وہی کریں جس کا آپ کو اللہ رب العزت کی جانب سے حکم دیا جا رہا ہے اگر اللہ رب العزت نے چاہا تو عنقریب آپ مجھے ذبح پر صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند نے اللہ تعالی کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند کو ذبح کرنے کا ارادہ فرمایا تو ان کے فرزند نے عرض کی ” اے والد محترم! اگر آپ نے مجھے ذبح کرنے کا ارادہ کر لیا ہے تو پہلے مجھے رسیوں کے ساتھ مضبوطی سے باندھ لیں تاکہ میں تڑپ نہ سکوں اور اپنے کپڑے بھی سمیٹ لیں تاکہ میرے خون کی چھینٹے آپ پر نہ پڑیں اور میرا اجر کم نہ ہو کیونکہ موت بہت سخت ہوتی ہے اور اپنی چھری کو اچھی طرح تیز کر لیں تاکہ وہ مجھ پر آسانی سے چل جائے اور جب آپ مجھے ذبح کرنے کے لیے لٹائیں تو پہلو کے بل لٹانے کی بجائے پیشانی کے بل لٹائیں کیونکہ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ جب آپ کی نظر میرے چہرے پر پڑے گی تو اس وقت آپ کے دل میں رقت پیدا ہوگی اور وہ رقت اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل اور آپ کے درمیان حائل ہو سکتی ہے اور اگر آپ مناسب سمجھیں تو میری قمیص میری ماں کو دے دیں تاکہ انہیں تسلی ہو اور انہیں مجھ پر صبر آجائے
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: “اے میرے بیٹے! تم اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرنے میں میرے کتنے اچھے مددگار ثابت ہو رہے ہو اس کے بعد فرزند کی خواہش کے مطابق پہلے انہیں اچھی طرح باندھ دیا پھر اپنی چھری کو تیز کیا اور اپنے فرزند کو منہ کے بل لٹا کر ان کے چہرے سے نظر ہٹا لی پھر ان کے حلق پر چھری چلا دی تو اللہ رب العزت نے ان کے ہاتھ میں چھری پلٹ دی اس وقت انہیں ایک ندا کی گئی ” اے ابراہیم! تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا اور اپنے فرزند کو ذبح کے لیے بے دریغ پیش کر کے اطاعت و فرمانبرداری کمال کو پہنچا دی بس اب اتنا کافی ہے یہ ذبیحہ تمہارے بیٹے کی طرف سے فدیہ ہے اسے ذبح کر دو ( صراط الجنان )

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button